بلتستان کی تاریخ میں تمام محترم و محتشم مکاتب فکر کے لوگوں کی نظر میں تاریخی اہمیت کا حامل ہے

بلتستان کی تاریخ میں تمام محترم و محتشم مکاتب فکر کے لوگوں کی نظر میں تاریخی اہمیت کا حامل ہے ۔ اور یہ کچھ اس طرح سے ہے کہ اس کے بعد سے تا این دم ترقی کے ابواب و اسباب کے سامان پیدا و مہیا کرنے کی طرف حکومت وقت کے شانہ بشانہ عملی اقدامات نے وہ جہت اختیار کر لی کہ آج تک قابل تحسین و ستائش ہے ۔
اس زکر جمیل و تزکرہ میں ہم ہز ہائی نیس پرنس کریم آغا خان کی حالیہ سالوں و عشروں کی تحریرات و تقریرات کا خلاصہ مجموعی اجمالی خاکے کی شکل میں پیش کرنے کی جسارت کرتے ہیں۔
قارئین محترم و مکرم، زیر نظر مضمون میں ایک قسم کا تقابل و موازنہ پیش کیا جاتا ہے ۔ چونکہ بڑی اقوام و افراد کا شعار و وطیرہ مختصر المدتی کے ساتھ ساتھ، اور محض سطحی بصارت کی بجائے، طویل المدتی فیصلوں اور ترقی کی بصیرت پر بھی کما حقہ محیط و مبنی ہوا کرتا ہے
اس لئے، جس طرح ابھی تزکرہ ہوا، آئے ہز ہائی نیس کی اپنی تحریروں و تقریروں کا، جو آپ نے حالیہ چند سالوں یا عشروں میں اور خاص طور پر اپنے مادر علمی، یعنی ہارورڈ یونیورسٹی سمیت مغربی دنیا کے چند دیگر عظیم جامعات و مراکز علم و دانش میں ارض شمال کی ترقی کے لئے اپنی جاری و ساری کاوشوں و کوششوں کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے اسے نہ صرف اپنے فرائض منصبی کا اہم حصہ قرار دیا بلکہ اس وقت سے تا حال دنیا میں رُونما ہونے والے اکثر حالات و واقعات کے متعلق گہرا تجزیہ بھی پیش کیا ہوا ہے
ان میں ۔ اس سلسلے میں آپ کے مظبوط و غیر متزلزل نکتہ نظر اور موقف کی عکاسی و غمازی نظر آتی ہے جس میں آپ اپنی تخت نشینی سے لیکر اب تک انسانوں میں، بشمول جملہ اقوام و مزاہب عالم و جغرافیائی خطوں اور علاقوں میں بلا امتیاز رنگ و نسل اور عقیدہ خدمات انجام دینے کے حوالے سے علمی و عقلی مراکز فہم و دانش میں اپنی اکثر جاری گفتگو میں یہ بات واضح طور پر بتاتے رہے ہیں کہ بقول آپ کے کہ”یو مے بی این ایجوکیٹڈ پرسن ان دہ جوڈیو – کرسچین ورلڈ ، بٹ یو مے اسٹل بھی اگنورینٹ اباوٹ اسلام
اور حالانکہ وہاں پر آپ کو بطور پہلے، یا مسلم راہنماؤں میں، جو ممکن ہے بہت ہی کم ہی ایسا ہوتا ہو کہ، مغربی دنیا کے ان مراکز میں اس طرح کھل کر اسلام کا دفاع کیا جانا ، خود ہی ایک اہم پہلو ہے۔ مثلآ خاص طور پر یہ بات براؤن یونیورسٹی ہو، یا ہارورڈ یونیورسٹی ہو، یا دیگر مقامات ہوں، جن سب کا حوالہ یہاں ایک مختصر سی تحریر میں اس کا احاطہ کرنا مشکل ہے