تازہ ترین
گورنمنٹ بوائز مڈل سکول سکوار، گلگت نے بائی منتھلی امتحانی نتائج کا جائزہ اور پی ٹی ایس ایم اجلاس منع... اِنّا لِلّهِ وَاِنّا اِلَيْهِ رَاجِعُون وزیر داخلہ گلگت بلتستان شمس لون، آرمی چیف نے بھارت سے واپس بھیجے گئے 2 بچوں کے علاج کی ذمہ داری اٹھالی قیمتوں میں اضافے کے باوجود پاکستان میں سونے کی طلب میں ریکارڈ اضافہ وزیراعظم شہباز شریف کا آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر کا دورہ حکومت آزاد صحافت پر یقین رکھتی ہے ،محدود وسائل کے باوجود صحافیوں کی فلاح و بہبود اور معاشی خوشحالی ک... آزادی صحافت کے عالمی دن کے حوالے سے سینٹرل پریس کلب گلگت اور گلگت یونین آف جرنلسٹس کےزیر اہتمام پریس... پریس کلب گلگت کے نومنتخب صدر اور کابینہ کی حلف برداری کی تقریب پریس کلب گلگت میں منعقد صحافیوں کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی انجام دہی میں آسانی، بہبود کے لئے قانون سازی میں بھر پور کردار ا... گلگت بلتستان کے عوام کی جانب سے ڈیجیٹل ادائیگی کے نظام کو مثبت انداز میں اپنایا جا نے لگا
ضلع گلگت

آیت اللہ سید شہاب الدین مرعشی نجفی آیت اللہ بروجردی کے بعد شیعہ مراجع تقلید میں سے ہیں

غالباً 22سال پہلے اپنے تحقیقی کام کے سلسلے میں مجھے قم مقدس ایران جانے کا اتفاق ہوا جہاں بہت بڑی لائبریری ہے، آیت اللہ سید شہاب الدین مرعشی نجفی آیت اللہ بروجردی کے بعد شیعہ مراجع تقلید میں سے ہیں۔ وہ 27 سال کی عمر میں درجۂ اجتہاد پر فائز ہوئے۔ مرعشی شیخ عبدالکریم حائری اور آقا ضیاء الدین عراقی کے شاگردوں میں سے تھے اور سیدعلی قاضی، سید احمد کربلائی اور میرزا جواد ملکی تبریزی سے فیض حاصل کیا۔

مرعشی نجفی نے ایک کتب خانے کی بنیاد رکھی جو آج کتب کی تعداد اور قدیم اسلامی کتب کے قلمی نسخوں کے لحاظ سے، ایران کی پہلی بڑی اور دنیائے اسلام کا تیسری بڑی لائبریری سمجھی جاتی ہے۔ایک دن ہمارے ایک دوست جو وہاں دینی تعلیم حاصل کررہے تھے، کہنے لگے چلو فلم ہال چلتے ہیں فل دیکھنے کے لیے۔ خیر ہم دونوں فلم ہال پہنچے تو ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہاں کے علمائے کرام اپنی فیملیز کے ساتھ فلم سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور حسبِ ضرورت اپنے فنکاروں کی صلاحیتوں پر داد سخن دے رہے ہیں

یعنی اپنے سماجی رویوں پر فخر کررہے ہیں۔ فنکاروں کی اداؤں پر داد دینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے فنکاروں کے شجرہ نسب سے واقف ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی کرنا وہ اپنی اخلاقی ذمّہ داری سمجھتے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ فنکاروں کو اپنی تہذیب و ثقافت کے امین وسفیر بناکر مختلف ممالک بھیجتے رہتے ہیں۔اس مختصر تمہید کے بعد ہمیں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم اپنے فنکاروں کو اپنی تہذیب و ثقافت کے امین و سفیر سمجھتے ہیں؟ کیا ہم اپنی تہذیب و ثقافت کے حدود وقیود سے آگاہ ہیں؟ کیا ہمارے فنکار ہمارے سماجی رویوں کے ترجمان ہیں؟ کیا ہم نے اپنے ان فنکاروں کو دوسری تہذیب و ثقافت کے درمیان جاندار کردار پیش کرنے کے قابل بنایا ہے؟

کیا ہمارے ہاں کوئی ایسی جگہ ہے جہاں ہمارے یہ فنکار اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرسکیں؟اب ذرا سوچیے!آج ہمارے ہاں کوئی سنجیدہ شخص فلم دیکھنے اور فل ہال جانے والوں میں شامل ہوسکتا ہے؟ کیا ہمارے فنکاروں کو داد سخن دینے کے لیے ہمارے سنجیدہ لوگ تیار ہیں؟ کیا کوئی سنجیدہ شخص اپنے فنکاروں کی فنکارانہ صلاحیتوں کو اپنی تہذیب و ثقافت سے ہم آہنگ کرنے لیے سرمایہ خرچ کرنے کے لیے تیار ہے؟کیا ہمارے سنجیدہ لوگ فنکاروں کے شجرہ نسب اور ان کی ترجیحات سے آگاہ ہیں؟

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے فنکاروں کی عزت کریں اور انہیں گمنام زندگی گزارنے سے نکالیں۔ انہیں دوسری تہذیبوں کے امین وسفیر بننے سے روکیں۔ انہیں ایسے مواقع دیے جائیں جہاں وہ نہایت سنجیدگی کے ساتھ ہمارے تہذیبی اور ثقافتی رویوں کو قابلِ قبول بنانے کے لیے کام کرسکیں۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button