جو ضلع دیامر ایک تاریخی اور ثقافتی طور پر انتہائی اہم خطہ ہےڈاکٹر زہراء حسین

صوبائی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی ، گلگت بلتستان ثریا زمان سے ڈائریکٹر لاجوردپاکستان آرکیٹکٹ ، ڈاکٹر زہراء حسین ملاقات کی ملاقات میں ثقافت، آثار قدیمہ سمیت مختلف امور پر تبادلہ خیال ۔اس موقع پر ڈائریکٹر لاجورد پاکستان آرکیٹیکٹ ڈاکٹر زہراء حسین نے کہا کہ لاجورد پاکستان چترال ، یاسین اور گلگت بلتستان کے سیاحت و ثقافت کو فروغ ، آثار قدیمہ اور تاریخی مقامات کو محفوظ کرنے سمیت ناگہانی آفت کی صورت میں کلچرل ہیرٹیج و قیمتی نوادرات کے تحفظ کی نشاندھی کا کام کر رہی ہے ۔
صوبائی وزیر ثریازمان نے کہا کہ وادی داریل، جو ضلع دیامر میں ہی واقع ایک تاریخی اور ثقافتی طور پر انتہائی اہم خطہ ہے، قدیم زمانوں میں علوم کا مرکز تھا۔ آج بھی اس علاقے میں دورِ بدھ مت سے تعلق رکھنے والے علم گاہوں، عبادت گاہوں اور انسانی آبادکاریوں کے آثار موجود ہیں اس عظیم ورثے کو سمجھنے، اور مقامی لوگوں کو اس کی تاریخی افادیت اور مستقبل کے لیے اہمیت سمجھانے کی شدید ضرورت ہے ۔
انہوں نے مزید کہاکہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ضلع دیامر خوبصورتی اور قدرتی وسائل سے مالامال علاقہ ہے۔ لیکن میرے خیال میں دیامر کی اصل اہمیت کی وجہ اس کے جنگلات اور پہاڑ نہیں، بلکہ اس علاقے میں بسنے والے لوگ، ان کی قدیم تاریخ، اور اس تاریخ کے جا بجا بکھرے آثار ہیں بعض اندازوں کے مطابق کم و بیش 25 سے 30 ہزار پتھروں پر کندہ قدیم عبارتیں، اشکال اور تصاویر اس خطے میں زمانہءِ قدیم میں زندگی گزارنے والوں، یہاں سے گزرنے والے افراد اور اقوام، ان کے مذاہب و عقائد اور رسوم و رواج کے بارے میں مفید معلومات فراہم کرتے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ ‘چلاس کلچرل لینڈ اسکیپ پراجیکٹ نامی منصوبے کے تحت جون 2012 میں تیار کردہ ایک دستاویز میں لکھا گیا ہے کہ گچی نالے سے اس علاقے کے قدیم ترین نوادرات دریافت ہوئے ہیں، جن کی عمروں کا اندازہ 2 سے 6 ہزار سال قبلِ مسیح لگایا جاسکتا*صوبائی وزیر نے حکومت، ثقافتی اداروں، مقامی کمیونیٹیز اور بین الاقوامی تنظیموں کے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ باہمی شراکت داری کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ یہ باہمی اخلاقیات جامع حکمت عملی تیار کرنے میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے
جو ثقافتی ورثے کے تحفظ کو درپیش کثیر جہتی چیلنجوں سے نمٹتی ہے ۔اور حکومت گلگت بلتستان اس حوالے سے بھی اپنا بھرپور کردار ادا کررہا ہے جوردپاکستان بھی اس حوالےسے تحقیق، دستاویزات اور تعلیم کے ذریعے غیر محسوس ثقافتی ورثے کے تحفظ میں اہم کردار ادا کرتا ہے.ان کا مزید کہنا تھا کہ غیر محسوس ثقافتی ورثہ سے مراد وہ طرز عمل، نمائندگی، اظہار، علم، مہارت، اور رسوم و رواج ہیں جو کمیونٹیز کے اندر ایک نسل سے دوسری نسل