تازہ ترین
حکومت آزاد صحافت پر یقین رکھتی ہے ،محدود وسائل کے باوجود صحافیوں کی فلاح و بہبود اور معاشی خوشحالی ک... آزادی صحافت کے عالمی دن کے حوالے سے سینٹرل پریس کلب گلگت اور گلگت یونین آف جرنلسٹس کےزیر اہتمام پریس... پریس کلب گلگت کے نومنتخب صدر اور کابینہ کی حلف برداری کی تقریب پریس کلب گلگت میں منعقد صحافیوں کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی انجام دہی میں آسانی، بہبود کے لئے قانون سازی میں بھر پور کردار ا... گلگت بلتستان کے عوام کی جانب سے ڈیجیٹل ادائیگی کے نظام کو مثبت انداز میں اپنایا جا نے لگا قومی ایئرلائن کی گلگت کی 4 پروازیں منسوخ‘ سکردوکی تاخیر کا شکار اسلام سماجی انصاف کے اصولوں اور محنت کشوں کے حقوق کا درس دیتا ہے،وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حاجی گلبر خ... بھارت مسلسل پاکستان کے خلاف الزام تراشی کر کے خطے میں جنگی ماحول کو ہوا دے رہا ہے ، وزیر اطلاعات گلگ... راولپنڈی سے گلگت آنے والی کار گہری کھائی میں جاگری ،ایک ہی خاندان کے آٹھ افراد جاں بحق بابراعظم نے پی ایس ایل کی تاریخ میں نیا سنگ میل عبور کرلیا
ضلع ہنزہ

وادی ہنزہ کی 1400 سال پرانی بستی میں خاص بات کیا ہے؟

بستی کی بھرپور تاریخی ثقافتی اہمیت اور اس کے دلکش فن تعمیر نے دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی جانب کھینچ لیا ہے۔ مقامی لوگ آج بھی اپنے بزرگوں کی نشانیاں زندہ رکھے ہوئے ہیں, یہ قدیم ترین آبادی جو 1400 سال پرانی تاریخ رکھتی ہے، ہنزہ گنش کی اس آبادی کو قلعہ بند گاؤں بھی کہا جاتا ہے۔

پرانے وقتوں میں قبائل آپس میں لڑتے تھے، اس لیے کھلی آبادیاں نہیں ہوتی تھیں چنانچہ جنگوں سے محفوظ رہنے کے لیے گنش کے لوگوں نے قلعہ نما مکان تعمیر کیے۔

وادی ہنزہ کی اس قدیم آبادی کے ثقافتی ورثے میں دلچسپی رکھنے والے بہت سارے سیاح یہاں آکر خوش دکھائی دیتے ہیں۔

گاؤں کے رہائشی شبیر نے بتایا کہ اس کو ہنزہ کی سب سے پہلی آبادی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ قلعہ بند گاؤں ہے یعنی شروع میں قبائل ایک دوسرے پر حملے کیا کرتے تھے۔ جہالت کا دور تھا۔ اس زمانے میں کسی کھلی جگہ میں گھر بنا کے رہنا انتہائی غیر محفوظ تھا اس لیے لوگوں نے مناسب سمجھا کہ وادی ہنزہ کی گنش کو قلعہ بند کیا جائے۔

یہ قدیم بستی سیاحوں کے لیے ایسا مقام بن گئی جس کی سیر لازم سمجھی جاتی ہے ۔ یہ خطے کے بھرپور ثقافتی ماضی کی منفرد جھلک پیش کرتی ہے، ہرسال بڑی تعداد میں سیاح اس آبادی کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔

مقامی شخص نے مزید بتایا کہ گلگت بلتستان کے فورٹس کی طرح اگر اس آبادی کو اور اس اثاثے کو محفوظ بنانے اور اس کی حفاظت کے لیے گورنمنٹ اقدامات کرے تو یہ پرانے گھر ایک ورثے کے طور پر محفوظ رکھے جاسکتے ہیں۔

گورنمنٹ کی عدم توجہی کے باعث فن تعمیر کے شاہکار یہ گھر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور ان کے مزید خراب ہونے کے خدشات ہیں، اس لیے انہیں ہنگامی بنیادوں پر محفوظ بنانے کی ضرورت ہے۔ مزید جانیے اس ویڈیو رپورٹ میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button