تازہ ترین
گورنمنٹ بوائز مڈل سکول سکوار، گلگت نے بائی منتھلی امتحانی نتائج کا جائزہ اور پی ٹی ایس ایم اجلاس منع... اِنّا لِلّهِ وَاِنّا اِلَيْهِ رَاجِعُون وزیر داخلہ گلگت بلتستان شمس لون، آرمی چیف نے بھارت سے واپس بھیجے گئے 2 بچوں کے علاج کی ذمہ داری اٹھالی قیمتوں میں اضافے کے باوجود پاکستان میں سونے کی طلب میں ریکارڈ اضافہ وزیراعظم شہباز شریف کا آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر کا دورہ حکومت آزاد صحافت پر یقین رکھتی ہے ،محدود وسائل کے باوجود صحافیوں کی فلاح و بہبود اور معاشی خوشحالی ک... آزادی صحافت کے عالمی دن کے حوالے سے سینٹرل پریس کلب گلگت اور گلگت یونین آف جرنلسٹس کےزیر اہتمام پریس... پریس کلب گلگت کے نومنتخب صدر اور کابینہ کی حلف برداری کی تقریب پریس کلب گلگت میں منعقد صحافیوں کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی انجام دہی میں آسانی، بہبود کے لئے قانون سازی میں بھر پور کردار ا... گلگت بلتستان کے عوام کی جانب سے ڈیجیٹل ادائیگی کے نظام کو مثبت انداز میں اپنایا جا نے لگا
Uncategorized

فضل الرحمان کے اتفاق رائے کے بغیر آئینی ترمیم پاس کرنا ناممکن ہے، چیئرمین پی پی

بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کے اتفاق رائے کے بغیر آئینی ترمیم پاس کرنا ناممکن ہے، انکے ساتھ انگیج کرنےکی ضرورت ہے۔

چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نےکہا جے یو آئی بھی اپنا ڈرافٹ بنارہی ہے، ہماری کوشش تو اتفاق رائے پیدا کرنے کی ہے، مولانافضل الرحمان کیساتھ انگیج کرنےکی ضرورت ہے، مولانا فضل الرحمان ساتھ مل جاتے ہیں تو پھر ایک دو ماہ نہیں لگیں گے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کو ساتھ ملانے کیلئے ان کی تجاویز کو بھی ساتھ ملانا پڑیگا، مولانا نے کمیٹی میں کچا ڈرافٹ جو حکومت کے پاس ہے منظور کرانا تھا، بدقسمتی سے بعد میں آئینی ترمیم کا جو ڈرافٹ تھا وہ پاس نہیں ہوسکا۔

انھوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان سے پہلی ملاقات ہوئی تو ان کے تحفظات بہت زیادہ تھے، میری پارٹی کے بھی 20 سے 25 فیصد تحفظات تھے جو حکومت نے دور کیے، ظاہر ہے حکومت کے پوائنٹس مانیں گے تو ہمارے بھی پوائنٹس ماننا پڑیں گے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ پیپلزپارٹی کی بھی خواہش ہے کہ آئینی ترمیم کیلئے اپنا ڈرافٹ پیش کرے، ہم تو چاہتے ہیں کہ ریفارمز سے متعلق پی ٹی آئی کا بھی ان پٹ ہو۔

چیئرمین پی پی نے کہا کہ پیپلزپارٹی کا جو اپنا ڈرافٹ تھا اس میں ججز کی عمر سے متعلق کوئی پوائنٹ نہیں تھا، حکومت کا جو مجوزہ ڈرافٹ تھا اس میں ججز کی عمر سے متعلق پوائنٹ شامل تھا، پیپلزپارٹی کا مطالبہ تھا کہ آئینی کورٹ بنائیں،عمربڑھانے کے بجائے کم کریں۔

ہمارا مؤقف تھا کہ ملک میں بےروزگاری ہے عمرکم کریں تاکہ نوجوانوں کو روزگار ملے، سپریم کورٹ سے متعلق حکومت کی تجویز تھی کہ ججز کی عمر 67 اور مدت 3 سال رکھی جائے۔

انھوں نے کہا کہ جے یو آئی کی تجویز تھی کہ ججز کی عمر کی حد 65 ہی رکھی جائے، میری پارٹی کا مؤقف تھا حکومتی تجاویز سے لگ رہا تھا کہ کسی کو آؤٹ یا ان رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

بلاول بھٹو زردارنی نے کہا کہ جے یوآئی کی تجویز منفرد ہے کہ ججز تقرر کیلئے ایک الگ کمیٹی بنائی جائے، جے یو آئی کے مطابق اس کمیٹی میں پارلیمانی ممبران، ججز اور بارز کے ممبران بھی ہوں۔

انھوں نے کہا کہ جے یو آئی کی اس تجویز سے بھی ہم نے اتفاق کیا تھا، ہم سمجھ رہے تھے کہ حکومت اور مولانا فضل الرحمان آن بورڈ ہیں۔

چیئرمین پی پی نے کہا کہ ہم سمجھ رہے تھے کہ بس پیپلزپارٹی کوا ٓن بورڈ نہیں لیا گیا تھا، ایک کچا ڈرافٹ پیش کیا گیا جس پر جے یوآئی کے زیادہ اور پی پی کے کم اعتراضات تھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button